ہِجر کی شب کا نِشاں مانگتے ہیں
ہم چراغوں سے دُھواں مانگتے ہیں
کس قدر دُھوپ ہے صحرا میں کہ لوگ
سایۂ ابرِ رواں مانگتے ہیں
جب رگِ گُل کو ہَوا چَھیڑتی ہے
شہر والے بھی ہیں سادہ کتنے
دشت میں رہ کے مکاں مانگتے ہیں
تیرا معیارِ سخاوت معلوم
ہم تُجھے تُجھ سے کہاں مانگتے ہیں؟
دل سے تسکِیں کی طلب ہے ہم کو
دُشمنِ جاں سے اَمَاں مانگتے ہیں
مُنصفِ شہر ہے برہم اِس پر
لوگ کیوں اذنِ بیاں مانگتے ہیں
صحنِ مقتل سے گواہی لے لو
سرکشیدہ ہی سِناں مانگتے ہیں
آنکھ سے خونِ جگر کی خواہش؟
ہم بھی کیا جنسِ گراں مانگتے ہیں
ہم بگولوں سے بھی اکثر محسنؔ
رونقِ ہمسفراں مانگتے ہیں
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment