Friday 17 August 2012

آنکھوں سے رنگ پھول سے خوشبو جدا رہے

آنکھوں سے رنگ، پھول سے خوشبو جدا رہے
روٹھی رہے حیات، وہ جب تک خفا رہے
اتنے قریب آ کہ نہ کچھ فاصلہ رہے
سانسوں کے ماسوا نہ کوئی سِلسلہ رہے
دستک کوئی نہ در پہ ہو لیکن لگن رہے
ہر لمحہ انتظار یہ کسی کا لگا رہے
ڈسنے لگے نہ قُرب کی یکسانیت کہیں
اچھا یہی ہے مِل کے بھی کچھ فاصلہ رہے
وحشت کو اپنی دیکھنے والا کوئی نہ ہو
اب اس جگہ چلیں، نہ جہاں دوسرا رہے
پِھر دن میں میرے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہو
دل ہے کہ ساری رات یہی سوچتا رہے
انجان بستیوں سے تو شہرِ عدو ہی ٹھیک
یہ کیا کہ دور تک نہ کوئی آشنا رہے

جاوید ندیم

No comments:

Post a Comment