Saturday 11 August 2012

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خُوشبُو آئے
درد پُھولوں کی طرح مہکیں، اگر تُو آئے
بِھیگ جاتی ہیں اِس اُمید پر آنکھیں ہر شام
شاید اِس رات وہ مہتاب، لبِ جُو آئے
ہم تیری یاد سے کترا کے گزر جاتے، مگر
راہ میں پُھولوں کے لب، سایوں کے گیسُو آئے
وہی لب تشنگی اپنی، وہی ترغیبِ سراب
دشتِ معلوم کی، ہم آخری حد چُھو آئے
سینے وِیران ہُوئے، انجمن آباد رہی
کتنے گُل چہرے گئے، کتنے پری رُو آئے
آزمائش کی گھڑی سے گُزر آئے تو ضیاؔ
جشنِ غم جاری ہُوا، آنکھ ميں آنسُو آئے

ضیا جالندھری

No comments:

Post a Comment