Sunday 5 August 2012

راہ آسان ہو گئی ہو گی

گائی گئی غزل

راہ آسان ہو گئی ہو گی
جان پہچان ہو گئی ہو گی
موت سے تیرے دردمندوں کی
مُشکل آسان ہو گئی ہو گی
پھر پلٹ کر نِگَہ نہیں آئی
تجھ پہ قُربان ہو گئی ہو گی
تیری زُلفوں کو چھیڑتی تھی صبا
خُود پریشان ہو گئی ہو گی
اُن سے بھی چِھین لو گے یاد اپنی
جِن کا ایمان ہو گئی ہو گی
دل کی تسکین پوچھتے ہیں آپ
ہاں مری جان ہو گئی ہو گی
مرنے والوں پہ سیفؔ حیرت کیوں
موت آسان ہو گئی ہو گی

سیف الدین سیف

No comments:

Post a Comment