ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے! تجھے کِس بات پہ رونا آیا
کیسے جیتے ہیں یہ، کس طرح جیے جاتے ہیں
اہلِ دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا
جی نہیں آپ سے کیا شکایت ہو گی
حُسنِ مغرُور کا یہ رنگ بھی دیکھا آخر
آخر اُن کو بھی کسی بات پہ رونا آیا
کیسے مر مر کے گُزاری ہے تمہیں کیا معلوم
رات بھر، تاروں بھری رات پہ رونا آیا
کتنے بیتاب تھے رِم جِھم میں پِئیں گے لیکن
آئی برسات، تو برسات پہ رونا آیا
حُسن نے اپنی جفاؤں پہ بہائے آنسو
عشق کو اپنی شکایات پہ رونا آیا
کتنے انجان ہیں کیا سادگی سے پوچھتے ہیں
کہیے، کیا میری کسی بات پہ رونا آیا
اوّل اوّل تو بس ایک آہ نکل جاتی تھی
آخر آخر تو مُلاقات پہ رونا آیا
سیفؔ یہ دن تو قیامت کی طرح گُزرا ہے
جانے کیا بات تھی، ہر بات پہ رونا آیا
سیف الدین سیف
No comments:
Post a Comment