Sunday 12 August 2012

ابھی سے آفت جان ہے ادا ادا تیری

ابھی سے آفتِ جان ہے ادا ادا تیری
یہ ابتداء ہے تو کیا ہو گی انتہا تیری
میری سمجھ میں یہ قاتل نہ آج تک آیا
کہ قتل کرتی ہے تلوار یا ادا تیری؟
نقاب لاکھ چُھپائے وہ چُھپ نہیں سکتی
میری نظر میں جو صُورت ہے دلربا تیری
لہو کی بُوند بھی اے تیرِ یار! دل میں نہیں
یہ فکر ہے کہ تواضع کروں میں کیا تیری
سُنگھا رہی ہے مجھے غش میں نکہتِ گیسُو
خدا دراز کرے عُمر اے صبا! تیری
ادا پہ ناز تو ہوتا ہے سب حسینوں کو
فضا کو ناز ہے جس پر وہ ہے ادا تیری
جلیلؔ! یار کے دَر تک گُزر نہیں نہ سہی
ہزار شکر، ہے اُس کے دل میں جا تیری

جلیل مانکپوری

No comments:

Post a Comment