Thursday 16 August 2012

سنتے ہیں پِھر چھپ چھپ ان کے گھر میں آتے جاتے ہو

سُنتے ہیں پِھر چُھپ چُھپ اُن کے گھر میں آتے جاتے ہو
انشاؔ صاحب! ناحق جی کو وحشت میں اُلجھاتے ہو
دل کی بات چُھپانی مُشکل، لیکن خُوب چُھپاتے ہو
بَن میں دانا، شہر کے اندر، دِیوانے کہلاتے ہو
بے کَل بے کَل رہتے ہو، پر محفل کے آداب کے ساتھ
آنکھ چُرا کر دیکھ بھی لیتے ہو، بَھولے بھی بن جاتے ہو
پِیت میں ایسے لاکھ جَتن ہیں، لیکن اِک دن سب ناکام
آپ جہاں میں رُسوا ہو گے، وعظ ہمیں فرماتے ہو
ہم سے نام جنُوں کا قائم، ہم سے دَشت کی آبادی
ہم سے درد کا شِکوہ کرتے، ہم کو زخم دِکھاتے ہو؟

ابن انشا

No comments:

Post a Comment