Monday 13 August 2012

میں کیوں نہ ترک تعلق کی ابتدا کرتا

مَیں کیوں نہ ترکِ تعلّق کی ابتدا کرتا
وہ دُور دیس کا باسی تھا کیا وفا کرتا
وہ میرے ضبط کا اندازہ کرنے آیا تھا
مَیں ہنس کے زخم نہ کھاتا تو اور کیا کرتا
ہزار آئینہ خانوں میں بھی مَیں پا نہ سکا
وہ آئینہ جو مُجھے خُود سے آشنا کرتا
درِ قفس پہ قیامت کا حَبس تھا، ورنہ
صبا سے ذَکر تیرا مَیں بھی سُن لیا کرتا
میری زمیں تُو اگر مُجھ کو راس آ جاتی
مَیں رفعتوں میں تُجھے آسمان سا کرتا
غمِ جہاں کی محبت لُبھا رہی تھی مُجھے
مَیں کس طرح تیری چاہت پہ آسرا کرتا
اگر زبان نہ کَٹتی تو شہر میں محسنؔ
مَیں پتّھروں کو بھی اِک روز ہمنوا کرتا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment