ہم دو قدم بھی چل نہ سکے، خاکِ پا ہوئے
جو قافلے کے ساتھ گئے، جانے کیا ہوئے
آنکھوں میں ایک اشک سحر تک نہ آ سکا
کن حسرتوں کے ساتھ ستارے جدا ہوئے
دل کو شبِ طرب کی فضا یاد رہ گئی
لیکن وہ انتظار کے لمحات کیا ہوئے
اس پیکرِ بہار کی بُو باس یاد ہے
مدت گزر گئی ہے اگرچہ جدا ہوئے
جو لفظ کہہ دیئے وہ بنے کائناتِ شوق
لیکن وہ لفظ جو نہ زباں سے ادا ہوئے
مِٹنے لگا ہے رنج و مسرت کا امتیاز
شہزادؔ! کس فریب میں ہم مبتلا ہوئے
شہزاد احمد
جو قافلے کے ساتھ گئے، جانے کیا ہوئے
آنکھوں میں ایک اشک سحر تک نہ آ سکا
کن حسرتوں کے ساتھ ستارے جدا ہوئے
دل کو شبِ طرب کی فضا یاد رہ گئی
لیکن وہ انتظار کے لمحات کیا ہوئے
اس پیکرِ بہار کی بُو باس یاد ہے
مدت گزر گئی ہے اگرچہ جدا ہوئے
جو لفظ کہہ دیئے وہ بنے کائناتِ شوق
لیکن وہ لفظ جو نہ زباں سے ادا ہوئے
مِٹنے لگا ہے رنج و مسرت کا امتیاز
شہزادؔ! کس فریب میں ہم مبتلا ہوئے
شہزاد احمد
No comments:
Post a Comment