Sunday 5 August 2012

ہر اک چلن میں اسی مہربان سے ملتی ہے

ہر اِک چلن میں اسی مہربان سے مِلتی ہے
زمیں ضرور، کہِیں آسماں سے مِلتی ہے
ہمیں تو شعلۂ خِرمن فروز بھی نہ ملا
تِری نظر کو تجلّی کہاں سے مِلتی ہے؟
تِری نظر سے آخر عطا ہوئی دل کو
وہ اِک خلِش کہ غمِ دو جہاں سے مِلتی ہے
چلے ہیں سیفؔ! وہاں ہم علاجِ غم کے لیے
دلوں کو درد کی دولت جہاں سے مِلتی ہے

سیف الدین سیف

No comments:

Post a Comment