Sunday 12 August 2012

حوصلہ وصل کا، قسمت نے نکلنے نہ دیا

حوصلہ وصل کا، قِسمت نے نکلنے نہ دیا
ان کو شوخی نے مجھے دل نے سنبھلنے نہ دیا
قتل کر کے مجھے، جانا تھا انہیں مقتل سے
آپ چلتے ہوئے، تلوار کو چلنے نہ دیا
جام پر جام پلاتی رہی چشمِ ساقی
مجھ کو اِس دورِ مسلسل سے سنبھلنے نہ دیا
اپنی شوخی پہ بہت ناز تھا ان کو، لیکن
میں نے آغوشِ تصور سے نکلنے نہ دیا
میں تیری بزم سے بے داغ لیے جاتا ہوں
شمع کو تُو نے جلایا، مجھے جلنے نہ دیا
کس قدر جلد ہے ختم، جوانی کی بہار
نخلِ امید میرا، پھولنے پھلنے نہ دیا
غیر ممکن تھا کہ اس گھر میں وہ تنہا رہتے
کسی ارماں کو میرے دل سے نکلنے نہ دیا
لب بہ لب ہو کر عجب کام کیا ساغر نے
لفظ توبہ کا، میرے منہ سے نکلنے نہ دیا
وہی راتیں ہیں جدائی کی، وہی دن ہیں جلیل
اس زمیں کو زمانے نے بدلنے نہ دیا

جلیل مانکپوری

No comments:

Post a Comment