Saturday 25 August 2012

تو معمہ ہے تو حل اس کو بھی کرنا ہے مجھے

تُو مُعمہ ہے تو حل اس کو بھی کرنا ہے مُجھے
تُو سمندر ہے تو پھر تہ میں اترنا ہے مجھے
تُو نے سوچا تھا کہ جلووں سے بہل جاؤں گا
ایسے کتنے ہی سرابوں سے گزرنا ہے مُجھے
قہر جتنا ہے تیری آنکھ میں برسا دے، مگر
اسی گرداب میں پھنس کر تو ابھرنا ہے مجھے
پھر بپا ہے وہی جذبات کا طوفان تو کیا
اسی بگڑے ہوئے موسم میں سنورنا ہے مجھے
ان دنوں چاند کی تسخیر کی ہے فکر، کہ کل
چاندنی بن کے زمانے میں اترنا ہے مجھے
کس طرح چھوڑ دوں اس شہر کو اے موجِ نسیم
یہیں جینا ہے مجھے، اور یہیں مرنا ہے مجھے
رک گیا وقت، پلٹ آئی ہیں بِیتی صدیاں
یہی وہ لمحہ ہے جب شامؔ بکھرنا ہے مجھے

محمود شام

No comments:

Post a Comment