Monday 13 August 2012

پِھر وہی میں ہوں وہی درد کا صحرا یارو

پِھر وہی مَیں ہُوں، وہی درد کا صحرا یارو
تم سے بِچھڑا ہُوں تو دُکھ پائے ہیں کیا کیا یارو
پیاس اتنی ہے کہ آنکھوں میں بیاباں چمکیں
دُھوپ ایسی ہے کہ جیسے کوئی دریا یارو
یاد کرتی ہیں تمہیں آبلہ پائی کی رُتیں
کس بیاباں میں ہو بولو! مِرے تنہا یارو
تم تو نزدیکِ رگِ جاں تھے تمہیں کیا کہتا 
میں نے دُشمن کو بھی دُشمن نہیں سمجھا یارو
آسماں گَرد میں گم ہے کہ گَھٹا چھائی ہے
کچھ بتاؤ! کہ میرا شہر ہے پیاسا یارو
کیا کہوں گُل ہے کہ شبنم وہ غزل ہے کہ غزال
تم نے دیکھا ہی نہیں اُس کا سراپا یارو
کون تنہا رہے اِک عمر کسی کی خاطر
وہ جو مِل جائے تو اُس سے بھی یہ کہنا یارو
اُس کے ہونٹوں کے تبسّم میں تھی خُوشبُو غم کی
ہم نے محسنؔ کو بہت دیر میں سمجھا یارو

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment