Monday 13 August 2012

یوں تو ہے پرستار زمانہ تیرا کب سے

یُوں تو ہے پرستار زمانہ تیرا کب سے
پُوجا ہے مگر ہم نے تُجھے اور ہی ڈَھب سے
اُس آنکھ نے بخشی ہے وہ تاثیر کہ اب تک
مِلتی ہے ہمیں گردِشِ دَوراں بھی ادب سے
یاروں کی نگاہوں میں بصیرت نہ تھی ورنہ
پُھوٹی ہے کئی بار سحر، دامنِ شب سے
وہ گُل جو گریباں میں سجائے تھے کسی نے
وہ گُل ہوئے منسُوب تیری سُرخئی لب سے
پلکوں پہ شرر، لب پہ دُعا، دِل میں ستارے
نِکلا ہے کوئی یُوں بھی، تیری بزمِ طرب سے
اُبھرے بھی صدا کوئی کسی شہرِ سکوں میں
ہم منتظرِ نغمہ و فریاد ہیں کب سے
احباب کے ہر طنز پہ سر خَم کِیا میں نے
محسنؔ مُجھے شکوہ ہے فقط خُوئے طلب سے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment