Thursday 23 August 2012

فردا

فردا

ہاری ہوئی رُوحوں میں
اِک وہم سا ہوتا ہے
تم خُود ہی بتا دو نا
سجدوں میں دَھرا کیا ہے؟
اِمروز حقیقت ہے
فردا کی خُدا جانے
کوثر کی نہ رہ دیکھو
ترساؤ نہ پیمانے
داغوں سے نہ رونق دو
چاندی سی جبِینوں کو
اُٹھنے کا نہیں پردا
ہے بھی کہ نہیں فردا؟

ابن انشا

No comments:

Post a Comment