فردا
ہاری ہوئی رُوحوں میں
اِک وہم سا ہوتا ہے
تم خُود ہی بتا دو نا
سجدوں میں دَھرا کیا ہے؟
اِمروز حقیقت ہے
کوثر کی نہ رہ دیکھو
ترساؤ نہ پیمانے
داغوں سے نہ رونق دو
چاندی سی جبِینوں کو
اُٹھنے کا نہیں پردا
ہے بھی کہ نہیں فردا؟
ابن انشا
No comments:
Post a Comment