Wednesday 22 August 2012

یہاں بھی اک دن بہار ہو گی

(مقبوضہ کشمیر میں جاری جنگِ آزادی کے پس منظر میں لِکھی گئی نظم)

یہاں بھی اِک دن بہار ہو گی

یہ رات دن تم جو جبر موسم میں صبر کے گُل کِھلا رہے ہو
یہ جو صلیبوں کے سائے میں تم وطن کے نغمے سُنا رہے ہو
یہ اپنے شانوں پہ، اپنے پیاروں کے لاشے تم جو اُٹھا رہے ہو
کہ بِیج بو کے لہُو کے لوگو! رہائی کے گُل کِھلا رہے ہو
وطن کی مٹّی میں پُھول اِک دن محبتوں کے کِھلیں گے آخر
جُدا جُدا گر ہیں آج ہم تو ضرور کل کو مِلیں گے آخر
کسی سمے تو وطن سے اَب دُور دُشمنوں کا یہ گند ہو گا
وطن کی مہکی فضا میں پرچم ہمارا ہی سَربُلند ہو گا
مرے نگر کے چٹاں جیالو! مرے وطن کے نڈر سپوتو
مرا چمن بھی کِھلے گا اِک دن، یہاں بھی اِک دن بہار ہو گی

صغیر صفی

No comments:

Post a Comment