Monday, 13 August 2012

بہت ہوا کہ غم دو جہاں کی زد میں نہیں

بہت ہُوا کہ غمِ دو جہاں کی زَد میں نہیں
کہ میں اسیر زمان و مکاں کی حَد میں نہیں
میرے ملاپ کی خواہش ہے گر تو چاند نہ بن
کہ آسماں کی بلندی تو میرے قَد میں نہیں
سفیرِ موسمِ گُل ہے صبا کا پرچم ہے
وہ برگِ تَر جو ابھی تک خزاں کی زَد میں نہیں
ابھی نہ دام لگا اے خود آگہی اپنے
ابھی متاعِ جنُوں دامنِ خِرَد میں نہیں
طلب خُوشی کی نہ غم کی کشش کہ دِل جیسے
بہت دنوں سے حصارِ قبُول و رَد میں نہیں
صبا نے دامنِ گُل میں چُھپا کے رکھا ہے
وہ بھولپن جو ابھی تیرے خال و خَد میں نہیں
جو اعتبار تھا پیماں شکستگی میں نِہاں
نجانے کیوں وہ تیرے قولِ مُستنَد میں نہیں
یہ کہہ کے رُوح بدن سے بِچھڑ گئی محسنؔ
مُجھے سکوں تیری ٹُوٹی ہُوئی لحَد میں نہیں

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment