Friday 3 August 2012

شاید کوئی فسوں ہے تمہاری نگاہ میں

شاید کوئی فسوں ہے تمہاری نگاہ میں
لذت سی پا رہا ہوں غمِ بے پناہ میں
اڑنے کے واسطے کسی جھونکے کے منتظر
بیٹھے ہوئے ہیں خاک کی مانند راہ میں
یادیں بھی ہیں امید بھی ہے بے بسی بھی ہے
اے دوست! کیا نہیں ہے ہماری نگاہ میں
اے دل! میری شکستِ وفا پر نہ مسکرا
تُو بھی شریک ہے میرے حالِ تباہ میں
ہم کو سوائے شدتِ غم کچھ نہ مل سکا
لوگوں نے ایک کیف سا پایا گناہ میں
شہزادؔ! ہم کو عہدِ طرب بھولتا نہیں
جلوے سلگ رہے ہیں ہماری نگاہ میں

شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment