میرے ہمراہ منزل بھی رواں ہے
مسافر میں ہوں یا سارا جہاں ہے
حقیقت تک رسائی ہے کہاں ہے
یقیں جس کو سمجھتے ہو گُماں ہے
وہاں پہنچے جہاں جانا نہیں تھا
سفر جتنا کیا وہ رائیگاں ہے
وہاں میں ڈھونڈتا ہوں جاودانی
جہاں ہر چیز بے نام و نشاں ہے
بدلتا ہے وہ دن بھر میں کئی رُوپ
فلک شاید چراغوں کا دُھواں ہے
عجب آسیب ہے یہ خانۂ دل
مکیں ہوتے ہوئے خالی مکاں ہے
دہکتا کوئلہ ہے ہر حرفِ مطلب
مگر یہ کوئلہ میری زباں ہے
میرے دل میں چمکتے ہیں ستارے
میرے اندر بھی شاید آسماں ہے
پہنچنا ہے مجھے اپنے خُدا تک
مگر ساری خُدائی درمیاں ہے
یہ کِس کو چھو لیا شہزادؔ میں نے
سکت دل میں اب نہ ہاتھوں میں جاں ہے
شہزاد احمد
مسافر میں ہوں یا سارا جہاں ہے
حقیقت تک رسائی ہے کہاں ہے
یقیں جس کو سمجھتے ہو گُماں ہے
وہاں پہنچے جہاں جانا نہیں تھا
سفر جتنا کیا وہ رائیگاں ہے
وہاں میں ڈھونڈتا ہوں جاودانی
جہاں ہر چیز بے نام و نشاں ہے
بدلتا ہے وہ دن بھر میں کئی رُوپ
فلک شاید چراغوں کا دُھواں ہے
عجب آسیب ہے یہ خانۂ دل
مکیں ہوتے ہوئے خالی مکاں ہے
دہکتا کوئلہ ہے ہر حرفِ مطلب
مگر یہ کوئلہ میری زباں ہے
میرے دل میں چمکتے ہیں ستارے
میرے اندر بھی شاید آسماں ہے
پہنچنا ہے مجھے اپنے خُدا تک
مگر ساری خُدائی درمیاں ہے
یہ کِس کو چھو لیا شہزادؔ میں نے
سکت دل میں اب نہ ہاتھوں میں جاں ہے
شہزاد احمد
No comments:
Post a Comment