Friday 3 August 2012

میرے ہمراہ منزل بھی رواں ہے

میرے ہمراہ منزل بھی رواں ہے
مسافر میں ہوں یا سارا جہاں ہے
حقیقت تک رسائی ہے کہاں ہے
یقیں جس کو سمجھتے ہو گُماں ہے
وہاں پہنچے جہاں جانا نہیں تھا
سفر جتنا کیا وہ رائیگاں ہے
وہاں میں ڈھونڈتا ہوں جاودانی
جہاں ہر چیز بے نام و نشاں ہے
بدلتا ہے وہ دن بھر میں کئی رُوپ
فلک شاید چراغوں کا دُھواں ہے
عجب آسیب ہے یہ خانۂ دل
مکیں ہوتے ہوئے خالی مکاں ہے
دہکتا کوئلہ ہے ہر حرفِ مطلب
مگر یہ کوئلہ میری زباں ہے
میرے دل میں چمکتے ہیں ستارے
میرے اندر بھی شاید آسماں ہے
پہنچنا ہے مجھے اپنے خُدا تک
مگر ساری خُدائی درمیاں ہے
یہ کِس کو چھو لیا شہزادؔ میں نے
سکت دل میں اب نہ ہاتھوں میں جاں ہے

شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment