Sunday 5 August 2012

مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے

گائی گئی غزل 

مری داستانِ حسرت، وہ سُنا سُنا کے روئے
مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
کوئی ایسا اہلِ دل ہو کہ فسانۂ محبت
میں اُسے سُنا کے روؤں، وہ مجھے سُنا کے روئے
مری آرزو کی دُنیا، دلِ ناتواں کی حسرت
جسے کھو کے شادماں تھے، آج اُسے پا کے روئے
تری بے وفائیوں پر، تری کج ادائیوں پر
کبھی سر جُھکا کے روئے، کبھی منہ چُھپا کے روئے
جو سُنائی انجمن میں شبِ غم کی آپ بِیتی
کئی رو کے مُسکرائے، کئی مُسکرا کے روئے
میں ہوں بے وطن مسافر، میرا نام بے کسی ہے
میرا کوئی نہیں جہاں میں جو گلے لگا کے روئے
کہیں سیفؔ! راستے میں وہ مِلے تو اس سے کہنا
میں اداس ہوں اکیلا، میرے پاس آ کے روئے

سیف الدین سیف

No comments:

Post a Comment