Friday 3 August 2012

جس سے تو بات کرے جو ترا چہرہ دیکھے

جس سے تُو بات کرے جو تِرا چہرہ دیکھے
پھر اسے شہر نظر آئے نہ صحرا دیکھے
روشنی وہ ہے کہ آنکھیں نہیں کھلنے پاتیں
اب تو شاید ہی کوئی ہو جو اجالا دیکھے
اس بھرے شہر میں کس کس سے کہوں حال اپنا
میری حالت تو کوئی دیکھنے والا دیکھے
چھوڑنے میں نہیں جاتا اسے دروازے تک
لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے
منہ چھپانے کا بھی موقع نہ میسر آئے
اہلِ دنیا کی وہ ذِلت ہو کہ دنیا دیکھے
سائے کی طرح مِرے ساتھ ہے دنیا شہزادؔ
کیسے ممکن ہے کہ کوئی مجھے تنہا دیکھے

شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment