Sunday 5 August 2012

بچھڑ کے تجھ سے تیری یاد کے نگر آئے

بِچھڑ کے تجھ سے، تیری یاد کے نگر آئے
کہ اِک سفر سے کوئی جیسے اپنے گھر آئے
ہمارے ساتھ رُکے گی ہماری تنہائی
تمہارے ساتھ گئے جو بھی دربدر آئے
گماں بھٹکنے لگے تھے پسِ نِگاہ، مگر
چراغ دور سے جلتے ہوئے نظر آئے
چَھٹا غبار تو راہوں میں کتنے پھول کِھلے
بجی جو دَف تو فصیلوں پہ کتنے سَر آئے
بہار، راس نہ آئی قفس نشانوں کو
اڑان بھول گئے جونہی بال و پر آئے

زاہد مسعود

No comments:

Post a Comment