مسجد و منبر کہاں مے خوار و مے خانے کہاں
کیسے کیسے لوگ آ جاتے ہیں سمجھانے کہاں
یہ کہاں تک پھیلتی جاتی ہیں دل کی وُسعتیں
حسرتو! دیکھو سمٹ آئے ہیں ویرانے کہاں
میں بہت بچ بچ کے گُزرا ہوں غمِ ایّام سے
یہ بھی تیرے غم کا اِک بدلا ہوا انداز ہے
میں کہاں، ورنہ غمِ دوراں کہاں
بزم سے وحشت ہے، تنہائی میں جی لگتا نہیں
اب کسی کی یاد لے جائے، خُدا جانے کہاں
سیفؔ! ہنگامِ وصال، آنکھوں میں آنسُو آ گئے
یاد آئے اُن کی بے مہری کے افسانے کہاں
سیف الدین سیف
No comments:
Post a Comment