Wednesday 1 August 2012

ہم خاک با سر ریت کے صحرا میں کھڑے ہیں

ہم خاک با سر ریت کے صحرا میں کھڑے ہیں
پیاسے ہیں مگر اپنے اصولوں پہ اَڑے ہیں
لے جائے کہیں بھی ہمیں سیلابِ محبت
ہم کب کسی طُوفان کے ریلوں سے ڈرے ہیں
ہم نے بھی کفن باندھ لیے اپنے سروں پر
سب تیر بھی اپنی کمانوں میں پڑے ہیں
ڈٹ جائیں تو فولاد کی دِیوار ہیں ہم بھی
ہم ٹوٹ نہ پائیں گے کوئی کچے گھڑے ہیں
پھر آلِ علیؓ آج ہے شمشِیر کی زد میں
پھر ہاتھ میں نیزے لیے جلاد کھڑے ہیں
دریا بھی اگر چاہے تو رخ اپنا بدل لے
ہم کب یہاں موجوں کے سہارے پہ پڑے ہیں
اس شامِ غریباں میں نہیں ساتھ کوئی بھی
بِکھرے ہوئے لاشے تو بہر سِمت پڑے ہیں
سودا نہیں کرتے جو کبھی اپنی انا کا
ہے سچ کہ زمانے میں وہی لوگ بڑے ہیں

شہناز مزمل

No comments:

Post a Comment