Wednesday 1 August 2012

سائے پھیل جاتے ہیں درد رت کے ڈھلنے سے

سائے پھیل جاتے ہیں درد رُت کے ڈھلنے سے
چہرہ کس کا بدلا ہے؟، آئینے بدلنے سے
جنگلوں کے سناٹے رُوح میں اترتے ہیں
خواہشوں کے موسم میں پافگار چلنے سے
خواب پھر سے جاگے ہیں نیم خواب آنکھوں میں
گھنٹیاں سی بجتی ہیں آرزو بدلنے سے
گرد گرد چہرہ ہے وحشتوں کے ڈیرے میں
تھک گئی ہوں کتنا میں دائروں میں چلنے سے
آؤ ایسا کرتے ہیں، راہبر بدلتے ہیں
دیکھیں کون ملتا ہے منزلیں بدلنے سے
ظُلمتوں کے چہرے سے آئینے ہٹا ڈالو
روشنی تو ہو گی کچھ جگنوؤں کے جلنے سے
رقص ہے شراروں کا آج راہگزاروں پر
بستیاں نہ جل جائیں راستوں کے جلنے سے
ذہن کے سُلگنے سے جسم راکھ ہوتا ہے
زخم جلنے لگتے ہیں چاند کے نکلنے سے

شہناز مزمل

No comments:

Post a Comment