Wednesday 1 August 2012

بکھر کے ٹوٹنے والے صدا نہیں کرتے

بِکھر کے ٹوٹنے والے صدا نہیں کرتے
کوئی بھی کام خلافِ انا نہیں کرتے
شجر پہ بیٹھے ہوئے پنچھیوں سے بات کرو
فضا میں اڑتے پرندے سنا نہیں کرتے
گہر شناس ہیں طوفاں کے ساتھ رہتے ہیں
سمندروں سے عداوت کِیا نہیں کرتے
بڑی خموشی سے آ کر زمیں پہ گِرتے ہیں
فلک سے ٹوٹتے تارے صدا نہیں کرتے
بس ایک بار ہی قسمت ہم آزماتے ہیں
پھر اس کے بعد کسی سے گِلہ نہیں کرتے
بجھا دِیئے ہیں سرِشام آرزو کے چراغ
ہوا کے رخ پہ دِیے تو جلا نہیں کرتے

شہناز مزمل

No comments:

Post a Comment