Thursday 2 August 2012

ميں اگر جاں سے گزرتا ہوں، گزر جانے دے

ميں اگر جاں سے گُزرتا ہوں، گُزر جانے دے 
“اپنی آنکھوں کے سمندر ميں اُتر جانے دے“ 
اپنی بانہيں ميری گردن ميں حمائل کر دے 
اپنی زُلفيں ميرے شانوں پہ بِکھر جانے دے 
گو بھلانا ہے قيامت، تُو مگر ياد نہ آ 
ميرے اوپر يہ قيامت بھی گُزر جانے دے 
جی مگر وعدۂ فردا سے کہاں تک بِہلے 
روز مرنے سے تو اِک بار ہی مر جانے دے 
قافلہ درد کا بھٹکے گا شرفؔ! اور کہاں 
اپنے سينے ہی کے صحرا ميں اُتر جانے دے

محمود شرفؔ صديقی

No comments:

Post a Comment