Monday, 16 July 2012

جب کھلکھلا کے ساقی گلفام ہنس پڑا

جب کھلکھلا کے ساقئ گلفام ہنس پڑا
 شیشے نے قہقہے کیے اور جام ہنس پڑا
 غنچے کا منہ ہے کیا کہ تبسم کرے گا پھر
 گلشن میں گر وہ شوخِ گل اندام ہنس پڑا
 دنداں کی تاب دیکھ کے انجم ہوئے خجل
 وہ مہ جبیں جو شب کو لبِ بام ہنس پڑا
 کچھ تو خوش آئیں مجھ کو تِری بدزبانیاں
 میں سن کے تِرے منہ سے جو دشنام ہنس پڑا
 تھا غنچۂ دل گرفتہ نہایت ہی باغ میں
 پر کچھ دیا صبا نے جو پیغام ہنس پڑا
 سیراب آبِ تیغ سے ہو کر برنگِ گل
 ہر ایک زخمِ عاشقِ ناکام ہنس پڑا
 جس رات ٹھہری آنے کی اُس برق وش کی یاں
 گھر کا مِرے چراغ سرِ شام ہنس پڑا
 بارش کے وقت چمکے ہے بجلی بھی، کیا ہوا
 رونے پہ میرے گر وہ دل آرام ہنس پڑا
 کیا بات یاد آ گئی اُس کو کہ اے ظفرؔ
 وہ یک بیک جو سن کے مِرا نام ہنس پڑا

 بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment