Saturday, 14 July 2012

ہم بندگاں تو نذرِ وفا ہونے والے ہیں

ہم بندگاں تو نذرِ وفا ہونے والے ہیں
پھر آپ لوگ کِس کے خدا ہونے والے ہیں
اِس طرح مطمئن ہیں مِرے شب گزیدگاں
جیسے یہ سائے ظلِ ہما ہونے والے ہیں
بے چارے، چارہ سوزئی آزار کیا کریں
دو ہاتھ ہیں، سو محوِ دعا ہونے والے ہیں
اِک روز آسماں کو بھی تھکنا ضرور ہے
کب تک زمیں پہ حشر بپا ہونے والے ہیں
ہم پہلے تشنگی کی حدوں سے گزر تو جائیں
سارے سراب، آبِ بقا ہونے والے ہیں
لگتا نہیں ہے دل کو جفا کا کوئی جواز
نامہرباں، یہ تِیر خطا ہونے والے ہیں
ہم دل میں لکھ رہے ہیں، حسابِ سِتم گراں
کچھ دن میں سب کے قرض ادا ہونے والے ہیں
اِن راستوں میں دل کی رفاقت ہے اصل چیز
جو صرف ہم سفر ہیں، جدا ہونے والے ہیں
اچھا نہیں غزل کا یہ لہجہ مِرے عزیز
بس چپ رہو کہ لوگ خفا ہونے والے ہیں

عرفان صدیقی

No comments:

Post a Comment