Tuesday, 17 July 2012

صلیب سنگ پہ لکھا مرا فسانہ گیا

صلیبِ سنگ پہ لِکھا مِرا فسانہ گیا
میں رہگزر تھا مجھے روند کے زمانہ گیا
جبینِ سنگ پہ لکھا مِرا فسانہ گیا
میں رہگزر تھا مجھے روند کے زمانہ گیا
نقاب اوڑھ کے آئے تھے رات کے قزاق
پگھلتی شام سے سب دھوپ کا خزانہ گیا
گلیم اوڑھ کے آئے تھے رات کے قزاق
بِلکتی شام سے سب دھوپ کا خزانہ گیا
وہ چل دیا تو نگاہوں سے کد، دلوں سے غرور
لبوں سے زہر، ہواؤں سے تازیانہ گیا
یہ جانتا ہوں کہ تُو نے لیا تھا روک اسے
مگر وہ آتشیں آنسو تجھے جلا نہ گیا
کسے خبر وہ روانہ بھی ہو سکا کہ نہیں
تمہارے شہر سے جب اس کا آب و دانہ گیا
میں ایک ڈولتا ساگر مجھے اٹھاتا کون
گھٹا اٹھا کے چلی تھی مگر چلا نہ گیا
کہاں گیا میں بچھڑ کر کسے خبر ہو گی
جو ایک بار یہاں سے ہوا روانہ، گیا

 وزیر آغا

No comments:

Post a Comment