Monday, 16 July 2012

کوئی ہجر میرے وصال سے ہے بندھا ہوا

کوئی ہجر میرے وصال سے ہے بندھا ہوا
کہ یہ سلسلہ مہ و سال سے ہے بندھا ہوا
تیرا کل بھی ہو گا میری وفاؤں کی قید میں
تیرا ماضی بھی میرے حال سے ہے بندھا ہوا
میری جیت بھی کسی ہار سے ہے جُڑی ہوئی
سو عرُوج میرا زوال سے ہے بندھا ہوا
تیرے خدوخال کی نزاکتوں سے خبر ہوئی
کہ تُو آپ اپنی مثال سے ہے بندھا ہوا
میرا دل بھی ہے تیری چاہتوں کے حصار میں
میرا عشق بھی تیری شال سے ہے بندھا ہوا
وہ غرور کرتی ہے کتنا اپنے جمال پر
کہ شکاری اپنے ہی جال سے ہے بندھا ہوا
مجھے بے سبب تو پکارتی نہیں نیند میں
تیرا خواب میرے خیال سے ہے بندھا ہوا

اعجاز توکل

No comments:

Post a Comment