Tuesday, 17 July 2012

رہیں گے چل کے کہیں اور اگر یہاں نہ رہے

رہیں گے چل کے کہیں اور اگر یہاں نہ رہے
بَلا سے اپنی جو آباد گُلستان نہ رہے
ہم ایک لمحہ بھی خوش زیرِ آسماں نہ رہے
غنیمت اِس کو سمجھیے کہ جاوِداں نہ رہے
ہمیں تو خود چمن آرائی کا سلیقہ ہے
جو ہم رہے تو گُلستاں میں باغباں نہ رہے
شباب نام ہے دل کی شگفتہ کاری کا
وہ کیا جوان رہے جس کا دل جواں نہ رہے
حرم میں، دَیر و کلیسا میں، خانقاہوں میں
ہمارے عشق کے چرچے کہاں کہاں نہ رہے
کبھی کبھی، رہی وابستگی قفس سے بھی
رہے چمن میں تو پابندِ آشیاں نہ رہے
فضائے گل ہے نظر کش و مَن ہے دامن کش
کہاں رہے تِرا آوارہ سر، کہاں نہ رہے
بہار جن کے تبسّم میں مُسکراتی تھی
وہ گُلستاں وہ جوانانِ گُلستاں نہ رہے
خدا کے جاننے والے تو خیر کچھ تھے بھی
خدا کے ماننے والے بھی اب یہاں نہ رہے
ہمیں قفس سے کریں یاد پِھر چمن والے
جب اور کوئی ہوا خواہِ آشیاں نہ رہے
کِیا بھی سجدہ تو دل سے کِیا نظر سے کِیا
خدا کا شُکر کہ ہم بارِ آستاں نہ رہے
ہےعصرِ نَو سے یہ اِک شرط انقلاب کے بعد
ہم اب رہیں جو زمیں پر تو آسماں نہ رہے
براہِ راست تعلّق تھا جن کا منزل سے
وہ راستے نہ رہے اب وہ کارواں نہ رہے
ہمِیں خرابِ ضعیفی نہیں ہوئے سیمابؔ
ہمارے وقت کے اکثر حَسِیں جواں نہ رہے 

سیماب اکبرآبادی

No comments:

Post a Comment