مست کر کے نگہِ ہوشربا نے مجھ کو
بزمِ ساقی میں لگایا ہے ٹھکانے مجھ کو
لطف پروردۂ فطرت ہے سحر گشت مِرا
کہ نسیمِ سحر آتی ہے جگانے مجھ کو
ہاتھ رکنے نہ دیا مشقِ جفا نے ان کا
چین لینے نہ دیا شوقِ وفا نے مجھ کو
ایک چھوٹا سا نشیمن تو بنا لیتا میں
چار تِنکے نہ دیے میرے خدا نے مجھ کو
نغمہ سنجی مِری سیمابؔ بہت دلکش ہے
یاد ہیں طوطئ سِدرہ کے ترانے مجھ کو
بزمِ ساقی میں لگایا ہے ٹھکانے مجھ کو
لطف پروردۂ فطرت ہے سحر گشت مِرا
کہ نسیمِ سحر آتی ہے جگانے مجھ کو
ہاتھ رکنے نہ دیا مشقِ جفا نے ان کا
چین لینے نہ دیا شوقِ وفا نے مجھ کو
ایک چھوٹا سا نشیمن تو بنا لیتا میں
چار تِنکے نہ دیے میرے خدا نے مجھ کو
نغمہ سنجی مِری سیمابؔ بہت دلکش ہے
یاد ہیں طوطئ سِدرہ کے ترانے مجھ کو
سیماب اکبرآبادی
No comments:
Post a Comment