Tuesday 17 July 2012

دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں

دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں
ایک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
صبر آ ہی جائے گر بسر ہو ایک حال میں
اِمکاں اِک اور ظلم ہے قیدِ محال میں
آزردہ ہوں اِس قدر سرابِ خیال سے
جی چاہتا ہے تم بھی نہ آؤ خیال میں
دنیا ہے خواب حاصلِ دنیا خیال ہے
انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں
عمرِ دو روزہ واقعی خواب و خیال تھی
کچھ خواب میں گزر گئی کچھ خیال میں

سیماب اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment