لگتا نہیں ہے جی مِرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گِلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں
کہہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
ایک شاخِ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان
کانٹے بِچھا دئیے ہیں دلِ لالہ زار میں
*عُمرِ طویل مانگ کے لائے تھے چار دن*
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کنجِ مزار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر! دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ مِلی کوئے یار میں
بہادر شاہ ظفر
**
مذکورہ شعر کے متعلق ایک وضاحت کرنی بہت ضروری ہے یہ مصرع کئی جگہ پر اس شکل میں بھی آیا ہے
عُمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
اس مصرعے کی تصحیح بہت ضروری ہے اس سے ملتا جلتا ایک مصرع سیمابؔ اکبرآبادی کا بھی ہے جو یوں ہے
عُمرِ دراز، مانگ کے لائی تھی چار دن
اس مصرعے پر محترم سرور عالم راز صاحب نے بڑی تحقیق کے بعد وضاحت کی ہے اور اس کا لنک درج ذیل ہے۔
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=6676.0;wap2
http://xericarien.blogspot.co.uk/2012/07/blog-post_9638.html
سیمابؔ اکبرآبادی کی غزل بھی ساتھ میں پیشِ خدمت ہے اور اس کا لنک درج ذیل ہے
http://xericarien.blogspot.co.uk/2012/07/blog-post_9638.html
No comments:
Post a Comment