Monday, 16 July 2012

کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں

کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
کہیں بکھرتی ہُوئی دھول میں سوال ملیں
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
یہ شعر و شاعری سب ہے عطا ان آنکھوں کی
وہ اک نگاہ اُٹھائے تو سو خیال مِلیں
جو اپنے چہرے کو محفوظ دیکھنا چاہے
وہ کیا کرے کہ یہاں آئینوں میں بال ملیں
میں بے ہنر تھا سو حیرت میں گم ہُوا خالدؔ
کہ ہر قدم پہ یہاں لوگ با کمال ملیں

خالد شريف

No comments:

Post a Comment