اُسے تو کھو ہی چکے پھر خیال کیا اُس کا
یہ فکر کیسی کہ اب ہو گا حال کیا اُس کا
وہ ایک شخص جسے خود ہی چھوڑ بیٹھے تھے
گُھلائے دیتا ہے دل کو ملال کیا اُس کا
تمہاری آنکھوں میں چھلکیں ندامتیں کیسے
تمھارے اپنے ارادے میں کوئی جھول نہ تھا
کہو کہ ملنا تھا ایسا محال کیا اُس کا
وہ نفرتوں کے بھنور میں بھی مُسکرا کے ملا
اب اس سے بڑھ کے بھلا ہو کمال کیا اُس کا
اب اس طرح بھی نہ یادوں کی کرچیاں چُنیے
نہ تھا فراق سے بہتر وصال کیا اُس کا
یہ سوچ کر نہ ملے پھر اُسے کبھی خالدؔ
کہ جانے ہو گا ندامت سے حال کیا اُس کا
خالد شريف
No comments:
Post a Comment