Friday, 13 July 2012

وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا

وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا
دل کو مگر یقین کسی پر ہوا نہ تھا
ہم کو تو احتیاطِ غمِ دل عزیز تھی
کچھ اِس لیے بھی کم نِگہی کا گِلہ نہ تھا
دستِ خیالِ یار سے چھوٹے شفق کے رنگ
نقشِ قدم بھی رنگِ حنا کے سوا نہ تھا
ڈھونڈا بہت اسے کہ بلایا تھا جس نے پاس
جلوہ مگر کہیں بھی صدا کے سوا نہ تھا
کچھ اس قدر تھی گرمئ بازارِ آرزو
دل جو خریدتا تھا اسے دیکھتا نہ تھا
کیسے کریں ذکرِ حبیب جفا پسند
جب نام دوستوں میں بھی لینا روا نہ تھا
کچھ یوں ہی زرد زرد سی ناہیدؔ آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کِھلتا ہوا نہ تھا

کشور ناہید

No comments:

Post a Comment