کاٹتے بھی ہیں اِسی فصل کو بونے والے
ڈوب بھی جاتے ہیں اِک روز ڈبونے والے
لاش ابھری تو کئی نام لِکھے تھے اس پر
کتنے حیران ہوئے مجھ کو ڈبونے والے
کچھ تو اِس سادہ مزاجی کا صِلہ دے ان کو
زندگی لاکھ انہیں بارِ گراں لگتی ہے
خوش تو رہتے ہیں مگر بوجھ یہ ڈھونے والے
داغ مِٹ جائیں مگر میرے لہو کی خوشبو
تیرے دامن سے کہاں جائے گی، دھونے والے
منظور ہاشمی
No comments:
Post a Comment