کبھی تو یوں ہو کہ دونوں کا کام چل جائے
ہَوا بھی چلتی رہے اور دِیا بھی جل جائے
یہی لگے کہ حقیقت میں کچھ ہوا ہی نہ تھا
جو سانحہ تھا کسی خواب میں بدل جائے
ڈرو کہ وقت کے ہاتھوں میں ساری بازی ہے
نشانیاں بھی مِلیں گی پرانے موسم کی
ذرا ہوا تو رکے، برف تو پگھل جائے
تمام باغ کو حیرت میں ڈال دے کوئی
خزاں کے دور میں میرا درخت پھل جائے
اترتے رہتے ہیں بیڑے اُدھر کنارے پر
کبھی ہماری طرف کی ہَوا بھی چل جائے
منظور ہاشمی
No comments:
Post a Comment