عجیب حال یہاں دھوپ کے دیار میں تھا
شجر خود اپنے ہی سائے کے اِنتظار میں تھا
نہ جانے کون سے موسم میں پھول کِھلتے ہیں
یہی سوال خزاں میں، یہی بہار میں تھا
ہر ایک سمت سے لشکر ہوا کے آئے تھے
کِھنچی ہوئی تھی مِرے گرد واہموں کی لکِیر
میں قید اپنے بنائے ہوئے حِصار میں تھا
کوئی مکِیں تھا، نہ مہمان آنے والا تھا
تو پھر کِواڑ کھلا کس کے انتظار میں تھا
مِرے شجر پہ مگر پھول پَھل نہیں آئے
وہ یوں تو پَھلتے درختوں ہی کی قطار میں تھا
منظور ہاشمی
No comments:
Post a Comment