جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے
یاں بھی پیدا ہوئے پھر آپ پہ مرنے والے
ہے اداسی شبِ ماتم کی سہانی کیسی
چھاؤں میں تاروں کی نکلتے ہیں سنورنے والے
ہم تو سمجھے تھے کے دشمن پہ اٹھایا خنجر
تم نے جانا کہ ہمیں تم پہ ہیں مرنے والے
صبر کی میرے، مجھے داد ذرا دے دینا
او میرے حشر کے دن فیصلہ کرنے والے
عمر کیا ہے ابھی کم سِن ہیں، نہ تنہا لیٹیں
سو رہیں پاس میرے خواب میں ڈرنے والے
کیا مزہ دیتی ہے بجلی کی چمک مجھ کو ریاضؔ
مجھ سے لِپٹے ہیں مِرے نام سے ڈرنے والے
یاں بھی پیدا ہوئے پھر آپ پہ مرنے والے
ہے اداسی شبِ ماتم کی سہانی کیسی
چھاؤں میں تاروں کی نکلتے ہیں سنورنے والے
ہم تو سمجھے تھے کے دشمن پہ اٹھایا خنجر
تم نے جانا کہ ہمیں تم پہ ہیں مرنے والے
صبر کی میرے، مجھے داد ذرا دے دینا
او میرے حشر کے دن فیصلہ کرنے والے
عمر کیا ہے ابھی کم سِن ہیں، نہ تنہا لیٹیں
سو رہیں پاس میرے خواب میں ڈرنے والے
کیا مزہ دیتی ہے بجلی کی چمک مجھ کو ریاضؔ
مجھ سے لِپٹے ہیں مِرے نام سے ڈرنے والے
ریاض خیر آبادی
No comments:
Post a Comment