چاہت میں کیا دُنیاداری، عشق میں کیسی مجبُوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبُوری
میں نے دل کی بات رکھی اور تُو نے دُنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبُوری تھی ان کا حکم بھی مجبُوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بُوندوں کو تم روکو
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مُہر بلب
جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبُوری
جب تک ہنستا گاتا موسم، اپنا ہے، سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے، مصنوعی مجبُوری
مُدت گُزری اِک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسنؔ
ہم نے ساری عمر نِباہی، اپنی پہلی مجبُوری
محسن بھوپالی
No comments:
Post a Comment