سانجھ سویرے اپنے آپ سے لڑتا ہوں
رات گئے پھر اپنے پاؤں پڑتا ہوں
دن کی کھڑکی کھلتے ہی اُڑ جاتے ہیں
سوچوں کے جو پنچھی روز پکڑتا ہوں
رات کو آنسو چُن کر بھیگی پلکوں سے
آنچل آنچل چاند ستارے جڑتا ہوں
وصل اور ہجر کے آتے جاتے موسم میں
اپنے آپ سے ملتا اور بچھڑتا ہوں
جانے کب تکمیل ہو عاجزؔ ہستی کی
لحظہ لحظہ بنتا اور بگڑتا ہوں
مشتاق عاجز
رات گئے پھر اپنے پاؤں پڑتا ہوں
دن کی کھڑکی کھلتے ہی اُڑ جاتے ہیں
سوچوں کے جو پنچھی روز پکڑتا ہوں
رات کو آنسو چُن کر بھیگی پلکوں سے
آنچل آنچل چاند ستارے جڑتا ہوں
وصل اور ہجر کے آتے جاتے موسم میں
اپنے آپ سے ملتا اور بچھڑتا ہوں
جانے کب تکمیل ہو عاجزؔ ہستی کی
لحظہ لحظہ بنتا اور بگڑتا ہوں
مشتاق عاجز
No comments:
Post a Comment