کیا طبیعت تھی کسی راہ پہ ڈالی نہ گئی
کٹ گئی عمر مگر خام خیالی نہ گئی
اِک عذابِ غمِ دوراں تھا کہ جھیلا نہ گیا
اِک بلائے غمِ جاناں تھی کہ ٹالی نہ گئی
ایسا بھونچال مِرے شہرِ بدن میں آیا
دل کی گرتی ہوئی دیوار سنبھالی نہ گئی
پھر جو شبخون اندھیرے کی سپہ نے مارا
بچ نکلنے کی کوئی راہ نکالی نہ گئی
در پہ آئی تھی شبِ ہجر سوالی بن کر
لے گئی نیند مِری، لوٹ کے خالی نہ گئی
میں نے رکھا نہ قدم راہِ وفا پر عاجزؔ
جب تلک راہ میں دیوار اُٹھالی نہ گئی
مشتاق عاجز
کٹ گئی عمر مگر خام خیالی نہ گئی
اِک عذابِ غمِ دوراں تھا کہ جھیلا نہ گیا
اِک بلائے غمِ جاناں تھی کہ ٹالی نہ گئی
ایسا بھونچال مِرے شہرِ بدن میں آیا
دل کی گرتی ہوئی دیوار سنبھالی نہ گئی
پھر جو شبخون اندھیرے کی سپہ نے مارا
بچ نکلنے کی کوئی راہ نکالی نہ گئی
در پہ آئی تھی شبِ ہجر سوالی بن کر
لے گئی نیند مِری، لوٹ کے خالی نہ گئی
میں نے رکھا نہ قدم راہِ وفا پر عاجزؔ
جب تلک راہ میں دیوار اُٹھالی نہ گئی
مشتاق عاجز
No comments:
Post a Comment