Wednesday, 11 July 2012

کیا طبیعت تھی کسی راہ پہ ڈالی نہ گئی

کیا طبیعت تھی کسی راہ پہ ڈالی نہ گئی
کٹ گئی عمر مگر خام خیالی نہ گئی
اِک عذابِ غمِ دوراں تھا کہ جھیلا نہ گیا
اِک بلائے غمِ جاناں تھی کہ ٹالی نہ گئی
ایسا بھونچال مِرے شہرِ بدن میں آیا
دل کی گرتی ہوئی دیوار سنبھالی نہ گئی
پھر جو شبخون اندھیرے کی سپہ نے مارا
بچ نکلنے کی کوئی راہ نکالی نہ گئی
در پہ آئی تھی شبِ ہجر سوالی بن کر
لے گئی نیند مِری، لوٹ کے خالی نہ گئی
میں نے رکھا نہ قدم راہِ وفا پر عاجزؔ
جب تلک راہ میں دیوار اُٹھالی نہ گئی

مشتاق عاجز

No comments:

Post a Comment