روندے ہے نقش پا کی طرح خلق ياں مجھے
اے عُمر رفتہ چھوڑ گئی تُو کہاں مجھے
اے گُل تُو رخت باندھ، اُٹھاؤں ميں آشياں
گُل چيں تُجھے نہ ديکھ سکے باغباں مجھے
رہتی ہے کوئی بن کيے ميرے تئيں تمام
پتھر تلے کا ہاتھ ہے غفلت کے ہاتھ دل
سنگ گراں ہوئی ہے يہ خواب گراں مجھے
کچھ اور کنج غم کے سوا سُوجھتا نہيں
آتا ہے جب کہ ياد وہ کنج دہاں مجھے
جاتا ہوں خُوش دماغ جو سُن کر اسے کبھو
بدلے ہے دونوں ہی نظريں وہ، ديکھا جہاں مجھے
جاتا ہوں بس کہ دم بہ دم اب خاک ميں ملا مجھے
ہے خضرؑ راہ دردؔ يہ ريگ رواں مجھے
خواجہ میر درد
No comments:
Post a Comment