Friday 13 July 2012

قرار چھين ليا بے قرار چھوڑ گئے

قرار چھِين ليا بے قرار چھوڑ گئے
بہار لے گئے يادِ بہار چھوڑ گئے

ہماری چشمِ حزيں کا خيال کچھ نہ کيا
وہ عمر بھر کے لیے اشکبار چھوڑ گئے
جسے سمجھتے تھے اپنا وہ اتنی مدّت سے
اسی کو آج وہ بے گانہ وار چھوڑ گئے

رگوں میں اک تپش دردکار جاگ اٹھی
دلوں ميں اک خلشِ انتظار چھوڑ گئے
ہوائے شام سے آنے لگی صدائے فغاں
فضائے شوق کو ماتم گُسار چھوڑ گئے

نشاطِ محفل ليل و نہار لوٹ ليا
نصيب ميں غمِ ليل و نہار چھوڑ گئے
گھٹائيں چھائی ہيں ساون ہے مينہ برستا ہے
وہ کس سمے ميں ہميں اشکبار چھوڑ گئے

دلِ حزيں ہے اب اور عہدِ رفتہ کا ماتم
چمن کے سينے پہ داغِ بہار چھوڑ گئے
چھڑا کے دامنِ اميدِ دل کے ہاتھوں سے
سوادِ ياس ميں ماتم گُسار چھوڑ گئے

نہ آيا رحم ميرے آنسوؤں کی مِنت پر
کيا قبول نہ پھولوں کا ہار چھوڑ گئے
اميد و شوق سے آباد تھا ہمارا دل
اميد و شوق کہاں اک مزار چھوڑ گئے

تمام عمر ہے اب اور فراق کی راتيں
يہ نقشِ گيسوئے مشکيں بہار چھوڑ گئے
ترس رہے ہيں مسرّت کو عشق کے ارماں
ہميں ستم زدہ و سوگوار چھوڑ گئے

اميدِ خستہ، سکوںِ مضطرب، خوشئ بسمل
جہانِ شوق کو آشفتہ کار چھوڑ گئے
نگاہ درد کی غرض حزيں قبول نہ کی
ہميں وہ غمزدہ و دلفگار چھوڑ گئے

کسے خبر ہے کہ اب پھر کبھی مليں نہ مليں
نظر ميں ايک ابدی انتظار چھوڑ گئے
ہماری ياد بھلا کر وہ چل ديے اخترؔ
اور اپنی ياد، فقط يادگار چھوڑ گئے

اختر شیرانی 

No comments:

Post a Comment