Friday, 13 July 2012

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرسِ گل اداس کر کے مجھے 
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے 
میں رو رہا تھا مقدّر کی سخت راہوں میں
اڑا کے لے گئے جادو تری نظر کے مجھے
میں تیرے درد کی طغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے 
ترے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انہی راتوں میں عمر بھر کے مجھے 
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غمِ دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے 
پھر آج آئی تھی اِک موجۂ ہوائے طرب
سنا گئی ہے فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے

 ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment