Sunday, 8 July 2012

پھول سا تیرا سراپا اور خو پتھر کی ہے

پُھول سا تیرا سراپا اور خُو پتھر کی ہے
ٹُوٹ کر کیسے تُجھے چاہوں کہ تُو پتھر کی ہے
ٹُوٹ جانے کی گھڑی جیسے کھڑی ہو سامنے
ایک مُورت آئنے کے روبرو پتھر کی ہے
آ گیا ہوں آبگینے بیچنے بازار میں
دیکھتا کیا ہوں تجارت کُو بہ کُو پتھر کی ہے
جو قریب آیا وہی منہ پھیر کر چلتا بنا
بسکہ ہر سیمیں بدن کو جستجو پتھر کی ہے
روشنی، تازہ ہوا، کوئی صدا آتی نہیں
گویا اِک دیوار میرے چار سُو پتھر کی ہے
پھر مجھے لہجہ بدل کر وقت نے آواز دی
پھر مِری دیوانگی سے گفتگو پتھر کی ہے
آنکھ نیلم سی تو لب یاقُوت سے اچھے لگے
ہو نہ ہو عاجزؔ تجھے بھی آرزو پتھر کی ہے

مشتاق عاجز

No comments:

Post a Comment