گلابوں کے نشیمن سے مِرے محبوب کے سر تک
سفر لمبا تھا خوشبو کا، مگر آ ہی گئی گھر تک
وفا کی سلطنت، اقلیمِ وعدہ، سرزمینِ دل
نظر کی زد میں ہے خوابوں سے تعبیروں کے کشور تک
کہیں بھی سرنگوں ہوتا نہیں اخلاص کا پرچم
محبت، اے محبت! ایک جذبے کی مسافت ہے
مِرے آوارہ سجدے سے تِری چوکھٹ کے پتھر تک
اداسی مؤقلم ہے، نقش میں رنگِ ملال ابھرا
تمناؤں کے پس منظر سے دل کے پیش منظر تک
غلام محمد قاصر
No comments:
Post a Comment